Unknown

غالب کا طلسم خانہ تحیر

(سعدیہ اقبال)


غالب اپنے دور کے عظیم تجرباتی شاعر تھے ۔اسلوب اور معنویت دونوں اعتبار سے اس قدر متنوع اور گوناگوں تجربات کا اظہار ان کی شاعری میں ہے کہ متقدمین سے لے کر متاخرین تک کوئی بھی ان کا ہم قدم اور ہم سفر نظر نہیں آتا ۔بیسویں صدی میں جتنی بھی تحریکیں وجود میں آئیں ،ہر ایک کا سرچشمہ غالب کی فکر اور فلسفہ ہے ۔ اس تعلق سے مولانا نیاز فتح پوری کا یہ قول بڑی حد تک درست ہے کہ’’اردو شاعری میں نئے رجحانات کا سراغ ہمیں غالب کے وقت سے ملتا ہے۔ ‘‘

غالب کی شاعرانہ عظمت کو سمجھنے کے لئے ان کا یہ جملہ کہ ’’شاعری صرف قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی ہے ‘‘بڑی حد تک ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ان کے ذہنی عوامل تک پہچنے میں ممد و معاون بھی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے معنی آفرینی کی کوشش میں کس کس وادی خیال کی سیر وسیاحت کی ہے:

مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے

غالب فطرتا مشکل پسند واقع ہوئے تھے اس کی ایک وجہ ان کے کلام میں فارسی کا غلبہ اور دوسرے بیدل کے مزاج سے ہم آہنگی تھی کہ ابتدائی دور میں انہوں نے بیدل کی اتباع کی اور یہ اعتراف کیا :

طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے

اس کے بعد میر کے رنگ میں بھی انہوں نے شعر کہے مگر سادگی کے باوجود ان اے اشعار میں ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگی برقرار رہی ۔

غالب کی شاعری قنوطیت ،رجائیت ،رومانیت ،واقعیت ،رندی ،تصوف ، شوخی ،انکساری ،جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین و جمیل مرقع ہے ۔غالب کی آزادہ روی نے انہیں کسی مخصوص فکر یا فریم سے مفاہمت نہیں کرنے دیا ۔انہوں نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ مختلف زاویوں سے دیکھا اور ایک سچے فنکار کی حیثیت سے زندگی کی متضاد کیفیتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ۔ان کے مشاہدات اس قدر وسیع تھے کہ کائنات کا ہر ذرہ ان کے لئے عرفان و آگہی کا استعارہ تھا:

صد جلوہ روبرو ہے، جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے

بخشے جلوہ گل ذوق تماشا غالب
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا

غالب نے اپنے ذہن کے تمام دروازے وا رکھے اور مختلف سمتوں سے کھلی ہوا کا خیر مقدم کیا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک ہی لے میں زندگی کا راگ نہیں الاپا ۔ایک خالص تجرباتی شاعر کی حیثیت سے وہ ہر مقام پر رنگ و آہنگ بدلتے رہے ۔ان کی شاعری کے مختلف حصوں سے الگ الگ آوازیں ابھرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ان صداؤں کا تعلق اردو اور فارسی کے قدیم کلاسیکی شعراء کے علاوہ خود ہماری تہذیب و ثقافت اور روایت سے بہت گہرا ہے اور یہ آہنگ اتنا پر اثر ہے کہ اجتماعی لا شعور کو بھی متاثر کرتا ہے ۔

غالب کے کلام میں ہر سطح اور ذوق کے مطالبات کی تسکین کا سامان بھی ہے ۔ایک طرف ان کی شاعری میں رومانیت کا یہ عالم ہے کہ وہ رات دن تصور جاناں کئے بیٹھے رہنا چاہتے ہیں:

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے

تو دوسری طرف واقعیت کا کا یہ حال ہے کہ محبوب کی ستم شعاری کا شکوہ یوں لطیف طنزئے پیرائے میں یوں کرتے ہیں:

تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

غالب ذہنی تضادات کا مجموعہ تھے ۔ ایک طرف شاعر کے ذوق گناہ کا عالم ہے کہ وہ خدا سے نا کردہ گناہوں کی حسرت کی داد چاہتا ہے:

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

تو دوسری طرف خدا کی رحمتوں پہ اس کا یقین اور اپنے اعمال پہ شرمندگی کا یہ عالم ہے کہ بڑی خوبصورتی سے غالب یہ کہتے ہیں:

رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

خواہ سائنس کی دنیا ہو یا شعر وادب کی ،بعض ایسے ذہین لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذکاوت کے ذریعے روایت سے ہٹ کر راہ تلاش کرتے ہیں ۔ اور اس صداقت کو اپنی ذہنی گرفت میں لا تے ہیں جس کا اس وقت لوگوں کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ۔غالب کا شمار بھی کچھ ایسے ہی ذہین لوگوں میں ہوتا ہے ۔مغربی ادب میں انیسویں صدی کے اواخر میں علامت پسندی اور بیسویں صدی کے آغاز میں پیکریت کی تحریک معرض وجود میں آئی لیکن اس سے نصف صدی قبل اس شاعر نے اپنی فطرت ذکاوت کے سبب علامت پسندی اور پیکریت کے تجربات سے بے شمار امکانات کو روشن کیا ۔اور دنیا کو غرق حیرت کر دیا ۔ صرف یہی نہیں غالب نے اپنے زمانے میں ایسے شعر بھی کہے ہیں جن کی قدرو قیمت اشتراکی واقعیت کے عروج کے بعد اور بڑھ گئی ۔ غالب نے اپنی فطری ذکاوت کی مدد سے سو سال بعد کے ذ ہنی انتشار ، انارکی ، بحران کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا ۔

مستقبل کے مسائل کا عرفان کسی بھی دانشور اور مفکر کے لئے آسان ہے لیکن غالب کی انفرادیت اس میں ہے کہ ان کی سو سال قبل کی شاعری جدید رجحان اور ذہن کی عکاس ہے ۔ آل احمد سرور نے صحیح لکھا ہے کہ ’’غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی ،غالب نے اسے ذہن دیا‘‘

ترقی پسند دور میں غم عشق کے مقابلے غم روزگار کی اہمیت کا احساس شعراء میں جا بجا دکھائی دیتا ہے جس کی بہترین مثال غالب کا یہ شعر ہے:

غم اگر چہ جاں گسل ہے پر کہاں بچے کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا ،غم روزگار ہوتا

اس صنعتی کلچر اور مشینی عہد میں کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ دوسروں کی طرف مڑ کر دیکھے ۔ہر شخص اپنی ذات کے حصار میں قید ہے ۔ اور تہذیب تنزلی کی طرف مائل ہے ۔ اس تیز گام تہذیب کے زوال کا منظر ان کی شاعری میں یوں روشن ہوا ہے:

ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

خلائی سفر ، ٹیکنالوجی اور روز روز کے جدید انکشافات نے انسان کا جس قدر حوصلہ بلند کیا ہے ، اس کا ذکر جدید شعرا’ کے لئے فطری بھی تھا اور لازمی بھی ۔ لیکن غالب صدیوں قبل انسان کو اس بلندی پر دیکھنے کا حوصلہ رکھتے تھے ،وہاں تک غالباً اب تک کسی بھی وجودیت پسند شاعر کی رسائی نہیں ہوئی ہے ۔ اس سلسلے کا ایک شعر:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

غالب کے اختراعی اور خلاق ذہن نے اتنی دنیائیں دریافت کر لی تھیں کہ ہر دنیا ایک طلسم خانہ عجائب لگتی ہے ۔ ان کا ذہن مستقبلیت پسند تھا اسی لئے ان کے یہاں تمنا کے دوسرے قدم کی جستجو غالب رہی اور اسی جستجو نے ان کی شاعری سے آج کے ذہنوں کا رشتہ جوڑ دیا ہے کہ اردو زبان سے محبت رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو دیوان غالب سے متعارف نہ ہو ۔اس دیوان کے بارے میں ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا یہ خیال بہت معنی خیز ہے کہ ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ،وید مقدس اور دیوان غالب‘‘

غالب کی شاعری زندگی کی کشمکش کی پروردہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے ،اور جس تنہائی ، محرومی ،ویرانی ،ناامیدی کی جھلک ملتی ہے ،وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اپنے عہد ،سماج اور ماحول کی آئینہ دار ہے ۔وہ فلسفی نہیں لیکن ان کے حساس دل و دماغ میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔غالب کے یہاں استفہامیہ اشعار کی بہتات ہے ،یہ بھی ان کا منفرد انداز ہے ۔ ان کے دیوان کا پہلا شعر ہی سوال سے شروع ہوتا ہے:

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

ایک دوسرا شعر:

یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں

غالب کی شاعری میں زندگی سے فرار نہیں ہے اور نہ ہی ماضی ان کی پناہ گاہ ہے بلکہ ان کی شاعری میں ہمیں وہ تمام وسعتیں ،حسرتیں ،اور کرب و انتشار ملتے ہیں جو جدید ذہن کا خاصہ ہیں ۔دراصل جدید دور کا آغاز غالب سے ہی ہوتا ہے ۔

غالب کی شاعری میں طنز و مزاح کی نشتریت اور خندگی ہے ۔ حالی نے غالب کو ’حیوان ظریف ‘ کہہ کر ان کی مزاجی کیفیت کی عکاسی کی ہے جبکہ ایسا نہیں کہ وہ بہت خوشحال تھے ،انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی ۔قدم قدم پر قسمت نے انہیں چوٹ پہچائی اس کے باوجود وہ شگفتہ مزاج تھے ،شوخی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی ۔موقع کچھ بھی ہو ،وہ شوخی گفتار سے باز نہیں آتے ۔ظرف اتنا وسیع تھا کہ وہ اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ رکھتے تھے ۔


طنز و مزاح کے پس پردہ غالب کی شاعری میں ہمیں غم کی ایسی زیریں لہریں ملتی ہیں جن کے چشمے غم ذات ،غم دوراں ،غم عشق سے پھوٹتے ہیں اور یہ غالب کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کے اثرات ان کی شاعری میں بخوبی محسوس کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں بھی غالب کا انداز نرالا ہے۔وہ غم کو آزار نہیں بناتے بلکہ اسے گوارہ بناتے ہیں اور اس سے بلند ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ اپنے آشوب آگہی کو زہر بناکر نہیں بلکہ امرت بناکر ہمارے اندر منتقل کرتے ہیں ۔لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غالب نشاط زیست کے شاعر ہیں ۔

اسلوب بیان میں بھی غالب کا اپنا منفرد مقام ہے ۔وہ محض فکر ونظر کے مجتہد ہی نہیں ان کا انداز بیاں بھی ’اور‘تھا ۔وہ افکار و الفاظ کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے قائل ہیں ۔الفاظ ہوں یا تشبیہات وہ اتنی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں کہ قاری جنوں اور خرد کی کشمکش میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔

غالب ایک عظیم شاعر تھے ،ان کی عظمتوں کی علامتیں ان کے شعروں میں نمایاں ہیں ۔عہد کوئی بھی ہو ،غالب کی عظمت سے انکار ممکن نہیں ۔غالب اسم با مسمی تھے ،ان کا نام اسد اللہ خاں اور عرفیت مرزا نوشہ تھی ۔مغل بادشاہ کی طرف سے نجم الدولہ ،دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے ،غالب ان کا تخلص تھا ۔اور اس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا کے کوئی انہیں مغلوب نہ کر سکا ۔
Unknown
ہدیہ نعت بحضور شاہ ِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم
از 
مرزا اسد اللہ خان غالب

حق جلوہ گر  زطرزِ بیانِ محمد ﷺ است
حضور نبی کریم ﷺ کے بیان میں ذاتِ خداوندی جلوہ گر ہے
آرے کلامِ حق بزبانِ محمد ﷺ است
واقعی کلامِ حق حضور ﷺ کی زبان مبارک سے  ادا ہوتا ہے

آئینہ دار ِ پرتو مہر است  ماہتاب
ماہتاب سورج کے عکس کا آئینہ دار ہے
شانِ حق  آشکار زِ شان محمد ﷺ است
حضرت رسول اللہ ﷺ  کی شان و عظمت سے خدا کی عظمت و شان کا پتا چلتا ہے

تیرِ قضا ہر آئنہ  در ترکش ِ حق است
قضا کا تیر بلا شبہ حق ہی کے ترکش میں ہوتا ہے
اما کشاد آن زِ کمان محمدﷺ است
لیکن یہ تیر حضور ﷺ کی کمان سے چلتا ہے

دانی ، اگر  بہ معنی "لولاک" وارسی
اگر تو لولاک کے معنی پوری طرح سمجھ لے، تو تجھ پر یہ بات واضح ہو جائے گی
خود ہر چہ از حق است  از آنِ محمد ﷺ است
جو کچھ خدا کا ہے وہ حضور ﷺ ہی کاہے

ہر کس قسم بدانچہ  عزیز  است ، می خورد
ہر کوئی اس چیز کی قسم کھاتا ہے جو اسے عزیز ہوتی ہے
سوگندِ کردگار  بجانِ محمد ﷺ است
چنانچہ اللہ تعالیٰ جانِ محمد ﷺ کی قسم کھاتا ہے
واعظ حدیث سایہ طوبیٰ فرو گذار
اے واعظ !تو طوبیٰ کے سائے کی بات چھوڑ دے
کاینجا سخن زِ سرو روانِ  محمد ﷺ است
کیونکہ یہاں حضرت محمد ﷺ کے قد مبارک کی بات ہو رہی ہے

بنگر  دو  نیمہ  گشتن  ماہ ِ  تمام  را
تو ذرا چودھویں کے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھ
کان  نیمہ  جنبشے  زِ بنانِ محمد ﷺ است
یہ حضرت  محمد ﷺ کی مبارک انگلیوں کے ذرا سے اشارے کا نتیجہ ہے


ورخود  ز نقشِ مہر ِ نبوت  سخن رود 
اور اگر مہر ِ نبوت کے نشان کے بارے میں بات ہو  
آن نیز  نامور  زِ نشانِ محمد ﷺ است
وہ بھی حضور ﷺ کا نشان ہونے کی نسبت سے نامور ہوا ہے

غالبؔ ثنائے خواجہ  بہ یزدان  گزاشتم
غالب ؔنے حضور ﷺ کی نعت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے
کاں ذاتِ پاک  مرتبہ دانِ محمد ﷺ است
کیونکہ وہ ذاتِ پاک ہی حضرت محمد ﷺ کی شان و عظمت  سے صحیح معنوں میں آگاہ ہے
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں. Powered by Blogger.