Unknown

غزل 

نشاطِ معنویاں  از  شراب خانہ  تست
فسونِ بابلیاںفصلے از افسانہ  تست
اہلِ طریقت بھی تیری ہی شراب سے سرشار ہیں۔ اہل ِ بابل کا سارا جادو  بھی  تیرے  افسانے کا ایک باب ہے۔
بہ جام و آئنہ  حرف جم  و سکندر  چیست
کہ ہر چہ رفت بہ ہر عہد درزمانہ تست
جام اور آئینے  کی بات ہو  تو جم اور سکندر کا حوالہ کس لیے۔؟ کہ ہر دور اور ہر عہد میں جو کچھ بھی گزرا وہ  تیرے ہی زمانے  کے متعلق تھا۔
فریبِ حسنِ بتاں پیشکش اسیر  تو ایم
اگر خطست وگر خال ، دام و دانہ ِٔ تست
ہم جو حسینوں کے فریبِ حسن کا شکار ہیں۔یہ فقط  ایک بہانہ یا وسیلہ ہے ۔ ورنہ حقیقت میں تو ہم تیری ہی محبت کے اسیر ہیں۔  حسینوں کے خط و خال تیرے ہی تو دام و دانہ ہیں
ہم از احاطہ تست ایں کہ در جہاں  ما را
قدم بہ بت کدہ و  سر بر آستانہ ِٔ تست
تو  جو تمام عالم پر چھایا ہوا ہے تو یہ اسی کا نتیجہ  ہے کہ ہم ہیں تو بت کدے میں مگر ہمارا سر تیرے آستانے پر  ہے۔
سپہر را تو  بتاراج  ما گماشتہ ای
نہ ہر چہ دزد  زما  برد در خزانۂِ تست؟
تو نے آسمان کو  ہمیں لوٹنے پر مقرر کر رکھا ہے  لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ چور جو کچھ بھی ہم سے لوٹ کر لے گیا وہ تیرے ہی خزانے میں ہے۔؟
مرا چہ جرم گر آسماں پیماست
نہ تیز گامی  توسن  ز تازیانہ ِٔ تست؟
اگر میرا تخیل آسمانوں کی سیر  کرتا ہے  تو اس میں میری  کیا خطا ہے۔ کیا یہ تیرا چابک نہیں جو میرے تخیل کے گھوڑے کو تیز رفتار کیے ہوئے ہے۔؟
کماں ز چرخ و خدنگ از  بلا و پر  ز قضا
خدنگ خوردہ ای صید  گہ نشانۂِ تست
آسمان  کمان کی مانند ہے تو مصیبتیں تیر کی صورت ہیں جبکہ قضا اس تیر  کے پر ہیں۔ اس شکار گاہ  یعنی دنیا میں تیر کھانے والا  تیرے ہی نشانے کی زد میں ہے۔
سپاس جود تو  فرض است آفرینش  را 
دریں فریضہ دو گیتی  ہماں دوگانہ  تست
اس  مخلوق یا کائنات کا فرض ہے  کہ وہ تیری  بخشش کا شکر  بجا لائے ۔ اس فریضے میں یہ دو جہاں گویا اس شکرانے کےدو نفل ہیں۔
تو اے کہ محو سخن  گستران ِ پیشینی 
مباش منکر ِ غالب  کہ در زمانہ تست
اے مخاطب! تو جو قدیم استاد شعرا کی شاعری کے مطالعے  میں محو رہتا ہے ۔  تو  غالب ؔ کا منکر نہ ہو کہ تیرے عہد (زمانے) میں ہے۔


پسِ منظر


مولانا  حالی  فرماتے ہیں:۔
مرزا  کی  وفات  سے  چھ سات برس پہلے کا ذکر  ہے  کہ ایک روز  نواب حسرتی (نواب مصطفےٰ خان شیفتہ) کے مکان پر  جبکہ راقم  بھی وہاں موجود تھا ۔ آرزردہ  ؔاور غالب اور بعض مہمان جمع تھے ۔ کھانے میں دیر تھی ۔ فارسی دیوان ِ غالب کے کچھ اوراق پڑے ہوئے مرزا کی نظر پڑ گئے ۔ ان میں ایک غزل تھی جس کے مقطع  میں اپنے منکروں کی طرف  خطاب کیا تھا ۔ جس کا مطلع  یہ ہے:۔
نشاط معنویاں  از شراب خانہ ِٔ تست
فسونِ بابلیاں فصلے از افسانہ  تست
مرزا نے وہ اوراق اٹھا لئے اور  مولانا آزردہ ؔسے مزاح کے طور پر کہا  :۔ "دیکھئے  کسی ایرانی  شاعر نے کیا زبردست غزل لکھی ہے۔" یہ کہہ کر  غزل پڑھنی  شروع کی ۔ اول  کے دو تین  شعروں کی مولانا نے تعریف کی ۔ مگر  پھر  بعض قرائن سے سمجھ گئے کہ مرزا ہی کا کلام ہے ۔ مسکرا کر  جیسی کہ ان کی عادت تھی  کہنے لگے:۔ "کلام مربوط ہے مگر نوآموز  کا کلام معلوم ہوتا ہے ۔" سب حاضرین ہنس پڑے ۔
جب مقطع کی نوبت آئی ۔  مرزا نے مولانا کی طرف خطاب کرکے  دردناک آواز  سے یہ مقطع پڑھا :۔
تو اے کہ محو سخن  گستران ِ پیشینی 
مباش منکر ِ غالب  کہ در زمانہ تست
اس وقت  سب لوگ بہت متاثر ہوئے  اور مولانا آزردہ  ؔشرما کر  خاموش ہو رہے۔
(یاد گارِغالب ۔ صفحہ نمبر  202)

2 Responses
  1. کیا خوبصورت کلام ہے۔بس تحریر کا انداز ظاہر ہے کہ جدید فارسی سے خاصہ مختلف ہے۔ مثلاً ’تُو است‘ کو ملا کر ’تُست‘ لکھا گیا ہے۔


  2. اگر گیتی سراسر باد گیرد
    چراغ ِ مقبلاں ہر گز نمیرد
    (اگر زمین سراسر ہوا بن جائے ۔ تب بھی صاحبِ اقبال اور مقبول لوگوں کا چراغ بجھایا نہیں جا سکتا)
    پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی


Post a Comment

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں. Powered by Blogger.